افسوس ناک لوگ انقلاب نہیں لاتے ، ناراض لوگ ہمیں حقیقی انقلاب دلا سکتے ہیں۔
150
ملین نوجوانوں کے دماغ ہیک ہو چکے ہیں۔ جب برٹش انڈیا میں پہلی مردم شماری کی گئی تو اس ملک میں دو لاکھ افراد نے خود کو
پایا۔ راجستھان میں
راجپوت ہندو تھے جو اپنے مردوں کو دفن کرتے تھے اور نکاح بھی کیا کرتے تھے۔ عرب
سپریم کی تاریخ کو انقلاب کی پرانی آنکھوں سے نہیں بلکہ موجودہ آنکھوں سے دیکھا
گیا۔
راز
یہ ہے کہ انقلابی معاشرے کے طاقتور طبقوں کی اس سے بھی بدتر ناکامیاں ہیں۔
اگر
تبدیلی کا حملہ کامیاب ہو جاتا ہے تو انقلاب ناکام ہو جاتا ہے اور بغاوت اس کی
تیسری بغاوت ہوتی ہے۔
موس
مشر میں تبدیلی کو کوئی نہیں روک سکتا ، لیکن یہ عام طور پر آتا ہے۔ اگر وقت کے
ساتھ چیزیں بہتر نہیں ہوتی ہیں، تو دو طریقے ہیں. اگر تبدیلی کو زبردستی روکا جائے
تو صورت حال ایسی ہو جاتی ہے کہ وہ بدل جاتی ہے۔ ہم اسے انقلاب عرف آم کہتے ہیں۔
جس میں حکومت کی پوری حکومت بدل جاتی ہے یا مجموعی طور پر حکمران طبقہ بدل جاتا
ہے۔ ان کی جگہ نئے لوگ لے لیتے ہیں، اور پرانے لوگ بھاگ جاتے ہیں، لیکن ایسی
تبدیلی میں۔
اس
طرح کے انقلاب کا نقصان یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں کسی کا کنٹرول ہوتا ہے۔
جی
ہاں اسٹیٹس اے ٹوٹ چکا ہے، نئی طاقتوں کی جانب سے کوئی گارنٹی نہیں ہے۔
یہ
معلوم نہیں ہے کہ آیا وہ انقلاب کے بعد کے مسئلے اور ان مسائل کو حل کر پائیں گے
جن کے لئے یہ تبدیلی شروع کی گئی تھی۔
کوئی
نہیں جانتا کہ اب نئی مصیبت آ رہی ہے، یہ وہ تبدیلیاں تھیں جن کا وعدہ کیا گیا
تھا۔
تبدیلیاں
آئیں گی کیونکہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ہر انقلاب برسوں تک کرنا پڑتا ہے۔
اپنے
آپ کو بچانے کے لئے جوابی انقلاب سے نمٹنے کے لئے تمام محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔
بعض
مورخین نے ایک انقلاب کو صرف ایک بدمعاش کے بجائے دوسرے انقلاب کے ساتھ جوڑ دیا
ہے۔
اگر
کچھ اور نہیں تو انقلاب کے بعد دوستوں، جو تبدیلی کا دوسرا راستہ ہے۔
مشال
کا طاقتور حکمران طبقہ آج تک بدلتے ہوئے
حالات میں عوام کی حفاظت کر سکتا ہے۔ ضرورت کو ذہن میں رکھتے ہوئے، آپ ہر چند
سالوں میں کچھ قدم اٹھاتے رہتے ہیں.
چھوٹی
چھوٹی تبدیلیاں کی جاتی ہیں، اور چھوٹے آپریشن کیے جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں
چھوٹے زلزلے آتے ہیں۔
اور
برسوں بعد، جب لوگ پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں، تو معاشرہ دو یا تین دنوں میں تباہ ہو
جاتا ہے ۔
ہم
اس سیاسی عمل میں بہت سی تبدیلیوں سے گزرے ہیں۔ کہا جائے گا کہ یہ سال کی تبدیلی
ہے جو ملک کی بہترین تبدیلی ہے۔ لیکن اگر اس طریقہ کار پر عمل نہیں کیا گیا تو اس
کے نتیجے میں انقلاب برپا ہو جائے گا۔ یہ سماج کے طاقتور طبقوں کی ناکامی کا نتیجہ ہوتا۔
کہا
جاتا ہے کہ انہوں نے انقلاب کی اصلاح نہیں کی اور نہ ہی معاشرے میں خلل ڈالا۔
وہ
یادوں کو چھوڑ دیتے ہیں اور ان کے بعد کے اثرات سے باہر نکلنے کے لئے اپنے ہاتھ
باہر نکالتے ہیں اور وہ کبھی بھی اپنی پوزیشن سے باہر نہیں نکلتے ہیں۔
اگر
انقلاب ناکام ہو جاتا ہے تو انقلابیوں کو باغی کہا جاتا ہے، وہ باغی بن جاتے ہیں
اور انہیں اس کی سزا بھگتنی پڑتی ہے۔ لیکن اگر انقلاب کامیاب ہو جاتا ہے تو ریاست
کے لوگوں کو درجہ دیا جاتا ہے۔ انقلاب کے بعد ہم نے دہشت کی پہلی قسم کی بارش
دیکھی ہے جس میں
انقلاب
کو انقلاب مخالف قرار دے کر اسے بچانے کے لیے ہزاروں افراد کو ہلاک کر دیا گیا۔
آخری
قسط آپ نے 1979 میں
ایران میں دیکھی تھی ۔ طاقتور طبقے کی ناکامی اور اصلاحات دراصل ماشے
کی پختگی کو ظاہر کرتی ہیں۔
بہت
پرانی باتیں کرنے کے بجائے، ہم اب 2010 اور 11 میں ہیں ، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ 13 ، 14 سال پہلے کیا ہوا تھا۔ آئیے عرب موما میں جو
کچھ ہوا اس کی مثال دیکھتے ہیں ، جسے رنگا رنگ عرب بہار کہا جاتا ہے ، جو بعد میں
عرب موسم سرما میں بدل گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ کوشش کسی نہ کسی طرح کامیاب رہی ہے
اور یہ یہاں ٹیونز میں ٢٣ سال تک جاری رہی۔ صدر زین العابدین ابن علی نے 17 دسمبر 2010 کو 26 سال تک ڈکٹیٹر کی طرح حکومت کی۔ نوجوان ابو عزیزی نے خود کو آگ
لگا کر خودکشی کر لی جب اسے ایک غریب شخص نے قتل کر دیا۔ ان کے جلنے کی تصاویر اور
ویڈیوز نے ان کی سبزی وں کی گاڑی چھین لی، جس نے تمام دھنوں کو آگ لگا دی۔ اس وقت
عرب نوجوانوں میں سوشل میڈیا ایک نیا رجحان تھا۔ نوجوانوں نے اس کا بہت زیادہ استعمال کیا اور شدید احتجاج شروع
ہوا، 28 دنوں میں 338,338 افراد ہلاک ہوئے۔
دو ہزار سے زائد افراد
زخمی ہوئے اور صدر زین العابدین کو ملک سے نکال دیا گیا۔
انہیں
سعودی عرب میں پناہ لینے پر مجبور کیا گیا اور 10 سال بعد وہیں ان کی موت ہو گئی ۔
ان
کے پیچھے تیونس میں نظام کی حکومت میں بڑی اصلاحات کی گئیں تاکہ کوئی اور ان جیسا ڈکٹیٹر نہ بن سکے۔
وزیر اعظم اور پارلیمنٹ کے درمیان ایک توازن پیدا کیا گیا، ایک نیا آئینہ بنایا
گیا، اور انقلاب کامیاب ہوا، لیکن 8 سال بعد.
نئے
صدر قیس سعید نے ایک بار پھر مکمل صدارتی نظام نافذ کر دیا ہے۔
مفو
کے صدر زین العابدین نے ایک بار پھر آمریت کے خلاف احتجاج کیا اور ان کی اجازت سے
صدر کا عہدہ بحال کر دیا گیا۔معاشرے کی باہمی پختگی بنیادی طور پر اس کے ساتھ نہیں
تھی۔
دھنوں
میں کچھ بھی تبدیل نہیں کیا جا سکتا تھا، آج اصلاحات تک 10 سال نہیں گزرے۔
ٹیونز
ایک بار پھر سیاسی بہرے پن کا شکار ہوگئی
ہے جس کے بعد عرب بہار کا آغاز ہوا۔
کہ
دیگر سات موما مثالیں گیت سے بھی زیادہ ناکام رہی ہیں۔
شیام
کو 65 لاکھ لوگوں کے سب
سے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑا اور آج یہ ملک سب سے سنگین بن گیا ہے۔ قابضین میں القاعدہ، امریکی
افواج، کرد فورسز، ترکی اور دیگر شامل ہیں۔ تیسری مثال بحرین ہے جہاں عرب بہار
اسرائیل کا حصہ ہے۔
یہ
بری طرح ناکام رہا کہ طاقتور حکمرانوں
نے 35 لوگوں پر اعتراض کرنے والوں کو قتل کیا اور انقلاب کو کچل دیا اور آج پہلے سے کہیں زیادہ سخت پابندیاں
عائد ہیں، چوتھی مثال مصر ہے، جہاں
2000
اور 2011 کے بعد
ہزاروں اور لاکھوں لوگ تحریر اسکوائر میں جمع ہوئے ہوں گے۔
انہوں
نے 2 سے 3000 نوجوانوں کی اس تبدیلی کے لئے ایک پل قائم کیا تھا۔ 30 سال سے انقلاب
کے لیے جانے جانے والے ڈکٹیٹر حسنی مبارک کی موت ابھی تک وہاں جمہوریت
نہیں آئی اور انسانی حقوق اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ جمہوری صدر محمد مرسی کو عدالت
میں قید کر دیا گیا جہاں انہیں جج کے دفتر لے جایا گیا۔
جنرل
سیسی ایک بار پھر اسرائیل کے ڈکٹیٹر ہیں ۔ امریکہ اور مغربی طاقتوں کو مکمل حمایت
حاصل ہے، انہیں ہر سال تین ارب ڈالر کی الگ الگ سبسڈی ملتی ہے۔
عرب
بہار میں شدید گراوٹ آئی لیکن آج کی نسبت بہت پورم بستی کو اس طرح ہٹایا گیا کہ یہ
واقعی ایک طوفان تھا۔ انقلاب آ چکا ہے، کرنل قذافی کو گزشتہ روز ان کے مخالف نے
قتل کر دیا تھا اور تیل سے مالا مال لیبیا
کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا: روس، ترکی اور عرب کھیلوں کے گروہوں نے
شہنشاہوں کی طرح ملک کے مختلف حصوں پر حکمرانی کی ہے، یعنی لیبیا کا انقلاب 42 سال
سے جاری ہے۔
کاجا
فائی آمریت کا تختہ الٹنے میں تو کامیاب ہو گئے لیکن جب انہیں ہوش آیا تو سارے
خواب آ گئے۔ رضا رضا کو ہوش آیا، سارے خواب رضا رضا فلائنگ کی طرح تھے اور پریشان
ہو رہے تھے۔ جانا لیبیا ایک ایسے اندھے کنویں میں گر چکا ہے کہ آج اس سے نکلنے کا
کوئی راستہ نہیں ہے۔ یمن کے ساتھ ایسا ہی ہوا، یہ عرب بہار میں چھٹا ملک تھا، صرف
ایک۔ ایک سال کے اندر ہی یمن کی عرب بہار نے ناکام صدر علی عبداللہ صالح کو ملک
بدر کر دیا لیکن نام نہاد انقلاب برپا ہو گیا۔
عبداللہ
صالح کی جگہ جس چیز نے لے لی وہ ایک اور مونچھیں تھیں۔
13
سالوں میں 4.5 ملین
یمنی ہلاک ہوئے، جن میں سے زیادہ تر بھوکے بچے تھے۔
کہت
اور ادوت کی موت مدد نہ ملنے کی وجہ سے ہوئی اور ان کی مائیں مر گئیں۔
حمسایا
یمنیوں کو خراج عقیدت تھا جو آپس میں لڑتے نہیں تھکتے تھے اور ایک دوسرے کو شکست
دینے اور فتح کا پرچم بلند کرنے پر فخر محسوس کرتے تھے۔
سعودی
عرب نے گزشتہ برسوں کے دوران 25 ہزار سے زائد فضائی
حملے کیے ہیں۔
یہاں
تک کہ یمن میں بھی انقلابی صرف یہ جانتے تھے کہ انہیں کیسے تعمیر کرنا ہے اور
انہیں کہاں تعمیر کیا گیا ہے۔
آج
یمن کو بدترین انسانی بحران قرار دینے کی کوئی بات نہیں ہو رہی ہے۔
ان
بدترین غلطیوں کے بعد دوست صرف دو کا شکار ہوئے ہیں۔
موما
وہ جگہ تھی جہاں طاقتور وں نے انقلاب کی کوششوں سے بہتر طریقے سے نمٹا۔
میجروں
کی اصلاح کے بعد ، وہ دونوں موما ، میراچ اور الجزائر تھے۔
اعتزاز
کی لہر منتشر ہو گئی، زیادہ نقصان نہیں ہوا۔
آج،
راکاش ایک بہت مستحکم ملک ہے، الجیریا میں بھی ایسا ہی ہوا.
اس
کی اصلاح کی گئی اور انقلابیوں کو یقین ہو گیا یا واپس بھیج دیا گیا ، لیکن کچھ
بھی اچھا نہیں بدلا۔
ان
کا ملک یمن یا شام نہیں بن سکا، یہاں تک کہ لیبیا بھی نہیں بن سکا، یہ محفوظ نہیں
ہو سکا، اسے تباہ نہیں کیا جا سکا، پھر ایسا کیا ہے کہ لیبیا آج بھی نہ بن سکا؟
اور
میراکس میں انسانی حقوق اور آزادی کی جدوجہد کسی نہ کسی طرح جاری ہے اور ملک کو
بھی بچا لیا گیا ہے۔
موسم
بہار کے آغاز سے لے کر انزام تک ایک کہانی تھی جو ہم نے عرب بہار کے موسم سرما سے
سیکھنے کے لئے آپ کے سامنے پیش کی تھی۔
آپ
آسانی سے پاکستان سے سبق سیکھ سکتے ہیں ۔
یہ
کہ ایک انقلاب جو تیاری کے بغیر آتا ہے وہ صرف غصہ، محبت، نفرت یا پروپیگنڈے کو کم
کرنے کے لئے آتا ہے۔
اگر
کوئی اچھی چیز نقصان دہ ہے تو سوال یہ ہے کہ قابیل طلافی قسم کا ہے۔
کیا
یہ ہے کہ جو نوجوان تبدیلی کی خواہش کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں وہ وہی کرتے ہیں جو
انہیں کرنا چاہئے؟
یعنی
تاریخ میں جو کامیاب چیز آئی وہ وحی کے طور پر سامنے آئی، درحقیقت وہ سب 99
لیکن
پورم اور بٹاری معمولی تبدیلیوں کے نتیجے میں آئے۔ ہم نے آپ کو سیاسی طور پر
اصلاحات کے بارے میں بتایا ہے، لیکن یہ اصلاحات بھی اسی صورت میں کامیاب ہوتی ہیں
جب وہ ہوں۔
اصلاحاتی
ایجنڈا لے جانے والوں کو چاہیے کہ وہ اپنے رہنماؤں کو فرنٹ لائن دیں۔
اور
اسے اپنے منہ کی جڑوں میں بیٹھ کر خراب ہونے کا بہت اچھا خیال ہے۔
آپ
صرف اوپری سطح کو دیکھ کر جانتے ہیں کہ کیا، کیوں، اور کس طرح اسے تبدیل کرنا ہے.
ایسی
تبدیلیاں جو ظاہری شکل کو تبدیل کرتی ہیں کچھ لوگ کبھی کامیاب نہیں ہوتے، وہ لازمی
طور پر ناکام ہوجاتے ہیں۔
کیونکہ
جس چیز کو تبدیل کرنا تھا وہ یہ تھا کہ آپ اپنی خراب کار کے ساتھ ایک کار کے مالک
تھے۔
وہ
اسے ٹھیک کرنے کے لئے ٹاپ کا استعمال کرتا ہے ، اس کا رنگ تبدیل کرتا ہے ، اس کی
بیٹری تبدیل کرتا ہے ، اس کے ٹائر تبدیل کرتا ہے۔
لیکن
گاڑی اسٹارٹ نہیں ہوتی، ٹائر گھومتے ہیں لیکن حرکت نہیں کرتے، کیونکہ گاڑی کے ٹائر
زمین سے ٹکرا جاتے ہیں۔
گاڑی
اینٹوں پر نہیں رکھی گئی ہے اور ٹائر زمین پر بوجھ نہیں بن رہے ہیں ، لہذا چلو
چلتے ہیں۔ یہ انا پرست شخص کیسے سمجھ سکتا ہے کہ پتھر سب سے پہلے گاڑی کے نیچے سے
پھینکا گیا تھا؟ اس گاڑی کو ہٹا دیں جو اس کے ٹائروں کو زمین تک پہنچنے کی اجازت
دیتی ہے اور گاڑی چلے گی۔
یہ
مسئلہ حل ہو جائے گا، ورنہ اگر پوری دنیا کی دولت بھی لگا دی جائے تو یہ گاڑی ٹائر
کھڑے ہوکر چلاتی رہے گی۔
نہیں،
اگر آپ کو اپنی گاڑی یا اپنے ملک کا بنیادی مسئلہ حل کرنا ہے.
اگر
ایسا ہے تو سب سے پہلے آپ کو اس مسئلے کے بارے میں جاننا چاہیے، ہمارے ملک پاکستان
کے بارے میں ہماری رائے میں۔
چار
بنیادی مسائل ہیں جنہیں ہم اصلاحات کے ذریعے حل کرسکتے ہیں اور ایک یا دو دن میں
ایک بڑا فرق پیدا کرسکتے ہیں۔
ہم
اپنے ملک کا پہلا ایشو، ابدی شناخت لے کر آئے ہیں۔
پاکستان
نے کہا کہ یہ بحران کا مسئلہ ہے جو ہماری جڑوں میں سرایت کر چکا ہے۔
اگر
ہم معاشرے کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی شناخت کے اندھیروں
سے شناخت کے بحران سے نکلنا ہوگا۔ بھارت کی وجہ سے بھارت کے بعد پاکستان میں کیا
ہوگا؟
اپر
مڈل کلاس مسلمان اب اپنی شناخت سے بہرے ہو چکے تھے کیونکہ پاکستان کی تباہی کو 76 سال سے
زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔
چوتھی
نسل جوان ہے، لیکن آج بھی یہ بحران آپ کے سامنے آ رہا ہے، مجھے نہیں معلوم کہ
ہم
کون ہیں، کیا پاکستانی عربوں کے اتحادی ہیں اور مشرق وسطیٰ کا حصہ ہیں، جنوبی
ایشیا نہیں؟
کیا
ہم سات ہزار سال پرانی وادی سندھ کی تہذیب کے وارث ہیں یا ہم مختلف
سندھی بلوچ ہیں؟
کیا
کشمیری پنجابی اور پشتون ہیں یا یہ ہے کہ ہم ایک جدید
قومی ریاست ہیں جس کی یہ تمام مختلف شناختیں ہیں؟
پاکستان
کے شہری ایسے ہیں جن میں جغرافیہ میں رہنے والے تمام لوگ بغیر کسی مذہب یا زبان کے
برابر ہیں۔
قانونی
طور پر سب کے ساتھ مساوی سلوک کیا جاتا ہے اور ریاست کا اپنا کوئی ویژن ایجنڈا
نہیں ہے جو عوام کی بہتری کے سوا کچھ نہیں ہے۔
دوستو،
احتیاط سے سمجھو کہ ہماری تباہی ہماری شناخت کا بحران ہے۔
جب
تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا، ہم جنگ میں نہیں جا سکتے۔
ہمارا
ملک بیل گاڑی کی طرح ہوگا۔
اس
کے ارد گرد چار بیل باندھے گئے ہیں، اور ہر بیل گاڑی کو ایک الگ سرحد میں تقسیم
کیا گیا ہے۔
آگے
بڑھنے سے پہلے اسے کھینچنے کی کوشش کرتے ہوئے، مختسر کو بتائیں کہ یہ
جب
1947 میں پاکستان
معرض وجود میں آیا تو
یہ بحران کیسے پیدا ہوا؟
تو
یہ وہ دور تھا جب دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا میں قومی ریاستوں کی تصویر ابھری۔
قومی
ریاستیں ایک ایسا ملک بن چکی تھیں جس کی سرحد یں واس سے ملتی تھیں، ایک ایسا شخص
جس کا حق تھا۔
وہ
سنگل اکائیاں بن گئیں، جن میں بہت سی زبانیں بولی جاتی تھیں، بہت سے کاموں کے کئی
رنگ تھے۔
ایسے
لوگ ہو سکتے تھے جو زندہ تھے، لیکن وہ سب ایک جھنڈے تلے جمع ہوئے، کیونکہ
اس
مخصوص جغرافیہ میں، ہر ایک کے حقوق کو قانون کے ذریعہ ضمانت دی گئی تھی.
جغرافیہ
میں اس کے نظام اور اس کے جھنڈے کو ذیلی جغرافیہ کہا جاتا ہے۔
وہ
ملک کے لوگوں کو متحد کرتی تھیں اور اپنے مفادات کے لئے کام کرتی تھیں۔
ایسا
نہیں ہے کہ اس ایک ریاست میں رہنے والے لوگوں کے اپنے ہیں۔
اس
ریاست کے علاوہ کوئی علیحدہ شناخت نہیں تھی، تاریخ کے مختلف منظرناموں کی وجہ سے
چھوٹے اور بڑے سیاروں کی بھی اپنی شناخت تھی۔
یہ اس جغرافیہ کے اندر تھا، لیکن اس ذات کا اس ابدی ریاست سے کوئی لینا دینا نہیں
تھا۔
ایسا
نہیں تھا کہ وہ دنیا کے سامنے کسی کو ترجیح دیتے تھے یا نہیں، انہوں نے پاسپورٹ پر
شاہی ریاست کے سامنے صرف یہی جغرافیہ کیا تھا۔
ریاستہائے
متحدہ امریکہ کے اندر رہنے والے لوگ مساوی شہری تھے اور ان حالات میں وہ برابر کے
شہری تھے۔
پس
منظر میں پاکستان کو ایک جدید قومی ریاست کے طور پر ابھرنا چاہیے تھا۔
جمہوریہ
کو ایک جمہوری ملک بننا چاہئے تھا ، لیکن اسے ایک جدید قومی ریاست کے بجائے مذہبی
نقطہ نظر سے مذہبی نقطہ نظر سے چھونا چاہئے۔
انہیں
آگے بڑھنے پر مجبور کیا گیا، جو ان کی تاریخ کے بالکل برعکس تھا۔
تاریخ
کو راستے سے ہٹنا پڑا تو پاکستان کے فورا بعد کیا ہوا؟ ایک بحث چھڑ گئی کہ ہماری
تاریخ کیا ہوگی، ہمارے ہیرو عربی محمد کون ہوں گے۔
ہمیں
بن قاسم کو ہیرو بنانا ہے ورنہ ہم اس سرزمین کی حفاظت کے لیے اپنی طرز زندگی بسر
کریں گے۔
راجا
ڈاہر وہ ہیرو ہے جو ڈاکو کے لیے لڑتا ہے، محمود غزنوی ہیرو ہے یا جپال اور آنند
پال، جو لاہور کی حفاظت کرتے ہیں، ان سے کیا فرق پڑتا ہے؟
پاکستان
بنتے ہی یہ سوال کمرے میں ہاتھی کی طرح ہمارے سامنے کھڑا تھا۔
آنے
والی نسلوں کو کیا بتایا جائے کہ ہندوستان کے مغرب میں لاکھوں لوگ رہتے ہیں؟
یہاں
یہ شناختیں کون ہیں؟
مغرب
کی طرف ہجرت کرنے والے مسلمان ہندوستان کے اس لقب سے ٹکرا گئے ہیں۔
جس
کو بھی پاکستان کا نام دیا گیا اسے مومل کیٹ خداداد اللہ کا انعام دیا گیا۔
اس
طرح کی مذہبی وابستگی رکھنے والے بہت سے لوگوں نے نام دینا شروع کر دیا، حالانکہ
یہاں کوئی لوگ نہیں رہتے تھے۔
یہ
سب مسلمان تھے اور یہ تاریخ صرف 1500 سال پہلے شروع نہیں ہوئی تھی۔ نہ ہی یہ ایک چھوٹا سا مذہبی
قصبہ تھا ، جیسا کہ ویٹیکن سٹی کے ساتھ ہوتا ہے ، جو تمام ایک مذہب اور باقی کے
ساتھ مخلوط ہیں۔
اجنبی
ہونے کا نقصان یہ تھا کہ پہلے دن سے ہی ایک تھا۔
رسہ
کشی شروع ہو گئی کہ مسلمان اس ملک کے بنیادی شہری ہیں اور کون جیتے گا۔
وہ
ایک اچھا، سچا، سچا اور سچا مسلمان ہے، وہ اتنا ہی اچھا، وفادار اور وفادار ہے۔
ہم
وطن بھی شہری ہیں، یہاں سے پھر یہ سوال مزید وجوہات پوچھنے لگا۔ اس نے وضاحت طلب
کرنا شروع کر دی کہ کون زیادہ سچا، زیادہ پاکیزہ اور زیادہ سچا مسلمان ہو سکتا
تھا۔
اعلی
پاکیزگی کی بحث شروع ہوئی کہ کون زیادہ پاکیزہ ہے اور یہی نتیجہ ہے۔
یہ
تکسم، جو سب سے پہلے ہندو مسلم مسلمانوں کے درمیان تعمیر کی گئی تھی، مسلمانوں کے
اندر گہری ہونے لگی۔
سچے
خالص اور سچے اسلام پر اس بحث نے جغرافیہ، پاکستان میں ایک بحث کو جنم دیا ہے۔
مناجرہ
اور ممبا کی طرف سے بہت زور دار گفتگو اور بحث ہو رہی تھی اور منہ سے جھاگ نکل رہا
تھا۔
راتوں
رات وہ گلیوں میں ایک دوسرے کو کافر کہتے تھے۔
لیکن
بڑے مواقع پر بات چیت ہوتی تھی اور ہزاروں لوگوں کو بلایا جاتا تھا اور بتایا جاتا
تھا کہ
فلاں
فرقا اور فلاں کافر کیوں ہے جس کا جغرافیہ سب سے بڑا ہے؟
شناخت
یہ تھی کہ وہ ہمالیہ کے میدانوں سے سندھ طاس کے بہرے ہندوستان کے پانیوں تک سفر
کرنے کے قابل تھے River.It چاروں طرف پھیلا ہوا ہے اور 7000 سال پرانی ثقافت رکھتا ہے۔
وہ
مذہبی طور پر عربوں سے زیادہ عرب ہیں، لہذا یہاں کے لوگ الفاظ کو نہیں سمجھ سکے،
عربی یا اسلامی بن گئے.
ان
پر تاریخ کو پینٹ کرنے یا ان کی زبانوں پر عربی تاریخ کو ان کی تاریخ کے طور پر
پیش کرنے میں ایک طویل سفر طے کیا گیا تھا۔
ہوا
یوں کہ عربوں کی محبت میں یہاں کے لوگ مسلمان عرب تو نہ بن سکے بلکہ اپنی تاریخ
بھی کھو بیٹھے۔
پاکستانیوں
کی شناخت کا بحران یہیں سے پھیلنا شروع ہوتا ہے اور بہت کچھ شہید ہو جاتا ہے۔
کہا
گیا ہے کہ زیادہ تر لوگ اربوں کی تاریخ کو اپنی تاریخ اور ان کی تاریخ کو ہندوستان
کی تاریخ سمجھنے لگے ہیں۔
بادشاہ
کے مجسمے پر ، بادشاہ پورس کی تاریخ چاکیا چندر گپت موریہ شوکا راجا نظر آتی ہے۔
داہر
سوات میں رنجیت سنگھ اور عطارد کی تاریخ جیسے بہت سے نام اور کہانیاں ہیں۔
جو
ہماری زمین سے جڑے ہوئے ہیں، لیکن ہم میں سے کتنے لوگ ان کی تفصیلات جانتے ہیں؟
کتنے
لوگ جانتے ہیں کہ یہ ہماری تاریخ ہے، نسیم حجازی جیسے کتنے لکھاری آئے ہیں؟
جس
نے اپنی کشتی میں وادی سندھ کے دیرینہ کرداروں کا مذاق اڑایا ہے اور
بنیا
نے حملہ آوروں کو ہیرو بنا کر عربوں کو ہمارے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
طاقتور
فوجی آمروں اور پاکستان کے جانشین ملاؤں نے آئی ٹی کے اس بحران کو بڑھانے میں مدد
کی ہے۔
اس
ٹائٹل کے بہت سے ہیروز تھے جنہوں نے بہت سارے کردار ادا کیے۔
اس
نے دنیا کی پہلی تہذیب تخلیق کی اور اسے اس طرح آگے بڑھایا کہ وہ انہیں سکندر اعظم
سے کولم لے گیا۔
احمد
شاہ درانی تک ہر بیرن نے حملہ آوروں پر حملہ کیا، وہ ہیرو یہاں کے لوگ تھے۔
انہوں
نے بات کرنا شروع کر دیا اور اپنے آپ کو ان لوگوں کے ساتھ جوڑنا شروع کر دیا جو
اپنی زبان ، ثقافت یا ثقافت کو نہیں جانتے تھے۔
وہاں
کے لوگ انہیں اپنا حصہ ماننے کے لیے تیار تھے۔
ہم
پاکستانی شناخت کے بحران کا شکار ہو چکے ہیں۔
اور
یہ مسئلہ ہمارے اتحاد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے کیونکہ اب ایسا ہی ہے۔
کون
زیادہ پاکیزہ ہے اور 1947 سے مسلمانوں کا ماجد تکصام یہی رہا ہے؟
نقصان
یہ ہے کہ ہم اپنے مسائل کو اپنے طریقے سے رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
جغرافیہ
کو جذباتی زاویے سے دیکھنے کے بجائے ہم صبر کرنے لگے ہیں۔
ایمان
اور محبت بھی موت کی گھنٹی بن چکے ہیں، یہاں تک کہ کھار کی پالیسی بھی، جیسا کہ
انتاہا ہسا کیس وں میں ہوا ہے۔
اور
معیشت کی طرح زندگی اور موت کی چوتھی نسل تک پہنچنے کے بعد بھی ہم صرف ہیں۔
اسے
جذباتی زاویے سے دیکھیں تو آپ کو بہت سے لوگ ملیں گے جو کہیں گے کہ یہ نفع و نقصان
میں چلا گیا ہے، ایسا ہونے والا ہے۔
میں
خود کو گرفتار نہیں کروں گا۔
انہوں
نے کہا کہ اگر کوئی پاکستان میں کچھ بھی تبدیل کرنا چاہتا ہے تو وہ پہلے ہم سے
رابطہ کرے۔
ہمیں
شناخت کے بحران کو سمجھنے اور لوگوں کو اس کے حل کی طرف لے جانے کی ضرورت ہے۔
ویسے
بیلے تاجک آپ کو بتائیں گے کہ اس بحران کی بنیادیں زیادہ پرانی نہیں ہیں، وہ بمشکل
100 سال پرانی ہیں۔
یہ
بہت عرصہ پہلے کی بات ہے کہ یہ بنیاد دراصل ہندوستان میں مضبوط ہونا شروع ہوئی
تھی۔
اس
بنیاد پر لوگوں کی تقسیم کا آغاز اس وقت ہوا جب 1920 میں پہلی بار 1920 میں۔
یہاں
بھارت میں انتخابات ہونے تھے، یہ انتخابات بھارت کی مختلف برادریوں میں ہوئے۔
نمائندگی
کے لیے 'تکسم کرو اور حکمرانی' کا نوآبادیاتی فارمولہ تیار کیا جا رہا تھا۔
لیکن
انگریزوں نے تمام ہندوستانی علاقوں سے نمائندے لینے کے بجائے مختلف طبقوں کے
نمائندوں کو لینے کا فیصلہ کیا۔
پانچ
نشستیں مسلمانوں کے لئے مخصوص تھیں، جس کے لئے ایک مسلم ووٹر منتخب کیا گیا تھا۔
مجھے
ایک مسلم امیدوار کو ووٹ دینا تھا، اب ظاہر ہے کہ اگر مجھے ایسا کرنا ہے تو اس سے
پہلے جاننا ضروری تھا۔
ہندوستان
کے کس حصے میں کتنے مسلمان اور کتنے ہندو اور کتنے سکھ، پارسی، یہودی، عیسائی اور
بدھ مت کے پیروکار ہیں؟
حواس
کی مردم شماری ہونی تھی، جو کئی بار ہوئی، برٹش انڈیا میں حواس تقریبا چھ تھے۔
18910 اور 1911 میں یہ سات بار ہوا ہے.
جب
بھی لوگ اس کے بارے میں سوچنے لگے، ایک مسئلہ جو سامنے آیا وہ یہ تھا کہ ہندو اس
کا حصہ نہیں تھے۔ ہمیں کس بنیاد پر مسلمانوں اور سکھوں میں فرق کرنا چاہیے؟
وہ
ایک اسکالر ہیں اور انہوں نے پاکستان پر بہت سی کتابیں لکھی ہیں، ایک کتاب سیاسی
تنازعہ ہے۔
راجستھان
کے اجمیر سے تعلق رکھنے والے راجپوت، جنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ پرتھوی راجپوت
نسل سے تعلق رکھتے ہیں، بجار تھے۔
ان
کا تعلق ہندو مت سے تھا، لیکن یہ ایسا تھا کہ وہ شادی بھی کر لیتے اور اپنی لاش کو
کیچڑ میں دفن کر دیتے۔
مسلمانوں
کی طرح پنجاب کے 10 لاکھ سکھ تھے جو گرو نانک کے پیروکار تھے۔
انہوں
نے 1890 کی مردم
شماری میں خود کو
ہندو قرار دیا تھا۔
لاکھوں
لوگ تھے جو اپنے آپ کو مسلمان ہندو کہنے کو ترجیح دیتے تھے۔
یہ
سمجھنا مشکل تھا کہ ان کی ہندوستانی گجراتی ثقافت شناخت سے ایک الگ شناخت ہے۔
ڈاکٹر
صاحب لکھتے ہیں کہ بنگال میں جو لوگ اکثر خود کو مسلمان کہتے تھے انہیں ایسا کرنے
کی اجازت نہیں تھی۔
انہوں
نے بھگوان کے لئے لفظ 'بھگوان' استعمال کیا اور مختلف ہندو دیوتاؤں کے نام بھی
استعمال کیے۔
ان
کی شاعری میں، جیسے دہلی کے قریب مسلمان شاعر شمس الدین پٹھان، ان کے الفاظ
وہاں
کے مقامی لوگوں نے ہندو دیوی دیوتاؤں کے نام پر شروعات کی، پھر اسی وقت۔ اجمیر
شریف میں حسینی برہمن بھی تھے جو نسلی طور پر ہندو تھے لیکن خود کو خواجہ معین
الدین کے خانقاہ سے زیادہ سمجھتے تھے۔
وہ
مسلمان کی طرح لباس پہنتے تھے اور روزہ بھی رکھتے تھے۔
ہر
کوئی جانتا ہے کہ مسلمان گولڈن ٹیمپل کی بنیاد ہیں۔
حضرت
میاں میر نے سکھوں کی کتاب دوسری طرف رکھ دی تھی۔ گرنتھ صاحب، جنہیں وہ اپنا گرو
مانتے ہیں، میں بابا فرید کی کافیہ بھی شامل ہے۔
ان
میں سکھ، روحانی پیشوا اور بنی حضرت بابا گرو نانک ملتان شامل ہیں۔
وہ
1947ء میں بہاؤالدین زکریا کے مقبرے پر جاتے تھے اور میرے متجسس ساتھیوں سے ملاقات
کرتے تھے۔ واضح رہے کہ ہندوستانی مشک اور اس کی مختلف ریاستوں میں مختلف مذاہب میں
مذہبی رنگ فطری ہے۔
ایسا
نہیں تھا کہ یہاں کے مذاہب مختلف تھے۔
آپ
ہوس کی حالت میں رہتے ہیں، اور آپ سوچتے ہیں کہ آپ کبھی ایک ساتھ نہیں رہیں گے.
سورت
کو ہر مذہب کے لئے مختلف شاہی ریاستوں کی ضرورت ہے۔
جب
مسلم لیگ بنا کر مسلمانوں کی تشکیل ہوئی تو اس بار غیر منصفانہ طریقے سے کام کیا
گیا۔
اس
سے ہندوستانیوں کو میشی کے ساتھ راہیں جدا کرنے میں مدد ملی اور یہ فیصلہ کیا گیا
کہ جوڈا کانا کی نمائندگی کریں گے۔
آپ
نے سنا کیونکہ انگریزوں نے 'تکسم کرو اور حکمرانی' کے نوآبادیاتی فارمولے کے تحت
طویل عرصے تک غیر ملکی سرزمین پر حکمرانی کی۔
اور
یہی وہ یہاں کر رہے ہیں، نفرت کی ایک فصل جو 20 ویں
صدی کے آغاز میں پیدا کی گئی تھی۔
نوآبادیاتی
طاقتوں نے ملک میں کاشتکاری شروع کی اور آج یہ معیشت کی شکل اختیار کر چکی ہے۔
اور
یہ ہمارا دوسرا بنیادی مسئلہ ہے، جسے ہم کم از کم حل نہیں کر سکتے. آپ پاکستان میں
کوئی بڑی تبدیلی نہیں لا سکتے، آپ اصلاحات یا نام نہاد کے ذریعے اسے لانے کی کوشش
کرتے ہیں۔
ہماری
بنیاد پر شناخت کے بحران کے بعد، یہ نفرت کی معیشت ہے.
نفرت
کا مسئلہ جڑ پکڑ چکا ہے، یاد رکھیں طاقت بھی طاقت ہے، معیشت بھی ایک ہے۔
طاقت
اور معیشت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔
تو
نفرت بھی پاکستان میں ایک معیشت بن چکی ہے، یہ پیسہ اور طاقت بھی لاتی ہے۔
زیادہ
سے زیادہ طاقت اور دولت کے لئے بھی نفرت ہے.
صحیفہ
کے پیروکار، سیاسی رہنما، مذہبی ملا بغیر کسی تفریق کے اور
وہ
نفرت پھیلانے میں ایک دوسرے پر فتح حاصل کرنے کے لئے دولت کے لئے زیادہ سے زیادہ
آگ لگا رہے ہیں۔ ہم ایسا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ملک میں ایسا کوئی نظام نہیں
ہے جو اسے روک سکے۔
عدالت،
کوئی قانون اور کوئی سماجی ڈھانچہ اسے روکنے کے قابل نہیں ہے۔
یاد
رکھیں، نفرت نفرت کی معیشت کا ایک ناگزیر نتیجہ ہے.
تشدد
اس لئے ہوتا ہے کیونکہ جب نفرت کا پودا جوان ہونا شروع ہوتا ہے تو تشدد ان میں سے
ایک ہے۔ ایک بدبودار اور برا پھل ہے جو ناگزیر ہے کہ آپ کو آنا پڑے کیونکہ آپ کے
پاس ہے
ہم
نے نفرت کا بیج بویا ہے جو ہمارے پاس آیا ہے، یہ فصل پک چکی ہے، ہم نے ایک نسل
کاٹی ہے۔
ہم
نے اس اصول کو تسلیم کیا ہے کہ مسئلے کا حل تشدد ہے اور کچھ نہیں۔
اگر
کوئی ایسا اسٹیکر لگاتا ہے جو آپ کو پسند نہیں ہے تو کوئی تشدد کا سہارا لے سکتا
ہے۔ اگر کسی نے ہمارا راستہ روکا ہے تو ہم اسے توڑ دیں گے۔
اگر
کوئی ہمیں طعنہ دے گا تو ہم اسے مار ڈالیں گے اور جواب دیں گے، یہ وہ پھل ہے جو ہم
نے دیا ہے۔ والس نفرت انگیز فصل کی کھیتی کر رہے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ ہومو
سیپیئنز 300،000
سال پرانے ہیں۔
میں
نے جو سیکھا وہ یہ تھا کہ باہمی اختلافات کھلی بحث اور لڑائی سے بہتر نتائج دیتے
ہیں۔
چنانچہ
انسان نے اس کے لئے ایک زبان ایجاد کی ہے۔
ہم
نے حکمت اور انسانی سوچ کا پورا سفر ایجاد کیا ہے اور ہم نے پوری رفتار سے ترقی کی
ہے۔
ہم
نے جنگل کی طرف واپسی کا سفر شروع کر دیا ہے کہ ہم ایک اسکواڈ کے طور پر ایک دوسرے
سے لڑیں گے اور اس لڑائی میں کون ہوگا۔
انہوں
نے صرف یہ ثابت کیا کہ وہ اچھے مکالمے کے لئے دونوں اطراف کے لوگوں کے ساتھ سچے
ہیں۔
انہیں
تعلیم یافتہ ہونا ہے، پڑھنا لکھنا ہے، ایک دوسرے کو اچھی پالیسی کے ساتھ سمجھنا
ہے، انہیں اپنی انا کو تھوڑا سا کم کرنا ہے۔
اور
ہم یہ کام کیوں کریں، ہم جنگلوں میں جا رہے ہیں، ہم فاتح کیوں بنیں، یہی نتیجہ ہے،
دوستو۔
تشدد
کا رومانس ہڈیوں تک پہنچ چکا ہے، ہم اس حقیقت پر فخر کرنے لگے ہیں کہ ہمارے پاس ہے
فلاں
فلاں کے بارے میں بہت کچھ سنا اور شناخت کے بحران کے بعد بہت کچھ بہہ گیا۔
یہ
ہمارا دوسرا مسئلہ ہے کہ ہم قومی مکالمے میں سنجیدہ مہارت کھو چکے ہیں۔
وہ
رہنما جو آپ کو کسی کی پیٹھ تھپتھپاتے ہیں وہ مسئلہ حل نہیں کر رہے ہیں۔
وہ
اس مسئلے کو ایک ایسے مقام پر لے جا رہے ہیں جہاں یہ دوبارہ کبھی حل نہیں ہوگا۔
قتل
کرنے اور زندگی دینے کے علاوہ، کمیونٹی کے پاس مسئلے کو حل کرنے کے ہزاروں طریقے
ہیں، اور وہ پیروی کرنے کے حقیقی طریقے ہیں.
دوستو،
پہلے دو مسائل کے نتیجے میں جو تیسرا مسئلہ پیدا ہوتا ہے وہ شناخت کا بحران اور
نفرت پر مبنی معیشت یعنی فوج ہے۔
سیاست
میں بہت سے طاقتور لوگ فوجی کردار کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔
سیاست
ایسی ہے کہ شناخت کے بحران نے نفرت کو جنم دیا ہے، نفرت نے اپنے جغرافیائی علاقوں
میں ایک دوسرے کے ساتھ جنگیں پیدا کردی ہیں۔
اور
ان جنگوں کے لئے، ظاہر ہے کہ ایک مضبوط فوج کی ضرورت ہے اگر ایک مضبوط فوج ہے.
لہذا،
اسے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ آپ لڑ رہے ہیں اور آپ لڑ رہے ہیں کیونکہ آپ اس
سے نفرت کرتے ہیں.
نفرت
کی وجہ یہ ہے کہ شناخت کا بحران ہے، اب ایسا ہوا ہے کہ جیسے جیسے نفرت اور عداوت
بڑھتی ہے، فوج کا سیاسی کردار بھی بڑھتا جاتا ہے۔
اور
فوج کی طاقت میں اضافہ ہوتا رہا جس کے نتیجے میں یہ عمل آج بھی جاری ہے۔
اس
سے ملک کو پیشہ ورانہ نقصان اور نسلی فکری اور معاشی نقصان بھی ہوتا ہے۔
ایسا
اس لیے ہو رہا ہے کیونکہ اتنی بڑی فوج اور اس کا سیاسی کردار بہت زیادہ ہے۔
ہمارے
جیسا غریب ملک اس کا متحمل نہیں ہو سکتا، لیکن اسے ایسا کرنا پڑتا ہے، جس سے
پاکستان میں طاقت کا ڈھانچہ مکمل طور پر تباہ ہو جاتا ہے۔
لیکن
ہم غیر متوازن ہو گئے ہیں۔
لیکن
کسی سیاسی کردار کے بغیر، چونکہ پاکستانی کمیونٹی تقریبا ہے
یہ
ایک اتفاق ہے، لہذا اس کی اہمیت کے بارے میں زیادہ بات کرنے کے بجائے، سوال یہ ہے
کہ یہ مقصد کیا ہے؟
ہم
کس طرح سوچتے ہیں کہ یہ مسئلہ سیاسی اشرافیہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔
اگر
آپ کو لگتا ہے کہ یہ عوامی دباؤ کی وجہ سے ہوگا تو میں آپ کو بتاؤں گا۔
میں
آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ معاشرے میں بڑی سادگی کی غلطی کر رہے ہیں۔
طاقتور
طبقے کا اشرافیہ طبقہ اس معاشرے میں اس چیز پر کسی نکتے پر، کسی فارمولے پر متفق
نہیں ہے۔
آٹھ
ارب ممکن نہیں۔
ماما
لاکندم
بات
یہ بھی ہے کہ پاکستان میں فوج کے زیادہ سیاسی کردار کو کم کیا جائے۔
سیاسی
اتفاق رائے ضروری ہے، لیکن بدقسمتی سے اس وقت پاکستانی سیاست دان
سلاد
کی کوئی بھی سیاسی اشرافیہ فوج کے سیاسی کردار کو کمزور نہیں کرنا چاہتی۔
آج،
سبھی بڑے سسی گروہ یا تو فوج کے ساتھ حکمرانی جاری رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
وہ
یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ وہ اقتدار میں آنے کے لئے فوج کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔
تاہم،
اگر پاکستان کے صرف چار سرکردہ سیاسی رہنما اتفاق رائے پر پہنچتے ہیں، تو وہ ایسا
کریں گے. اگر آپ قدم بہ قدم سیاسی معاملات میں فوجی کردار کو ختم کرنا جاری رکھتے
ہیں،
یہ
کچھ سالوں میں ہوگا، اس سے پاکستان کا دفاع مضبوط ہوگا، فوج اور سیاست کی پیشہ
ورانہ مہارت میں بہتری آئے گی۔
اس
سے یہ بھی سامنے آنا شروع ہو جائے گا کیونکہ تب لوگ اپنے مسائل کو سیاسی طور پر حل
کرنے کے لئے سیاسی جماعتوں کی طرف دیکھیں گے۔
ہر
کوئی ہر مسئلے پر فوج کی طرف نہیں دیکھے گا۔
کوششیں
ایسی ہونی چاہئیں کہ اس دوران ملک میں غذائی جنگ نہ ہو۔
عربوں
کی طرح کسی کو بھی اس طرح کے شاندار انداز میں اس تبدیلی کو لانے کی کوشش نہیں
کرنی چاہئے۔
بصورت
دیگر شام میں ہم لبنان، لیبیا اور یمن کی طرح ہوں گے۔
یہ
پاک فوج کا تیسرا مسئلہ ہے۔
رہنماؤں
کے سیسی مشنز کو ختم کیا جانا چاہئے اور فوج کے بڑھتے ہوئے سیاسی کردار کو ختم کیا
جانا چاہئے۔
اگر
ہم اسے ختم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں پاکستان کی سیاسی اشرافیہ کے اس اتفاق رائے کی
ضرورت ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کیا سیاسی اشرافیہ نے ان کے ساتھ ملی بھگت کی ہے۔
اگر
ہم رائے تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو ہمارے لوگ کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟
افسوس
کی بات ہے کہ آپ اور میں ابھی بہت کچھ نہیں کر سکتے۔
ہم
کسی بھی لیڈر یا کمیونٹی کے مضبوط حامی ہونے کے بجائے ایسا کر سکتے ہیں۔
جس
کی تکمیل پر پاکستان آگے بڑھ سکتا ہے اور ان مسائل پر بات کر سکتا ہے جن میں
پاکستان آگے بڑھ سکتا ہے۔
اس
ویڈیو میں ہم نے جن چیزوں پر تبادلہ خیال کیا ہے ان میں سے کچھ وہ ہیں جن کی ہمیں
اپنے رہنماؤں سے ضرورت ہے۔
اس
موت کی بات کریں جس کے لیے آپ نے ان کا ساتھ دیا تاکہ پاکستان کی بنیاد میں پڑے
پتھروں کو ہٹایا جا سکے۔
اپنے
قائد سے سخت سوالات نہ پوچھیں یا حکمرانوں سے سخت سوالات نہ پوچھیں اور کھانے پینے
کی سخت عادات نہ رکھیں۔
اگر
کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تو پھر آپ سیاسی کارکن نہیں ہیں، آپ سیاسی غلام اور
غلام ہیں۔
اگر
ایسا ہے تو آپ کو اتنی ہی اہمیت دی جائے گی جتنی آپ ان کے ڈھول بجانے والے ہیں۔
وہ
آپ کی تنقیدی سوچ کی قدر نہیں کریں گے اور خود عقلی فیصلوں کا باعث نہیں بنیں گے۔
جناح
کا چوتھا اور سب سے بڑا مسئلہ ہمارے مستقبل قریب کی نوعیت کا ہے۔
یعنی
اگر آج اس کو حل کرنے کی کوشش نہ کی گئی تو وہ مسئلہ آج پیدا ہو رہا ہے۔
لہٰذا
آج ہم نے جو بھی بڑی تبدیلیاں کی ہیں، یہ مسئلہ کل کا ہے، جس کا ذکر ہم کرنے جا
رہے ہیں۔
یہ
ہمارے سامنے ایک بڑا طوفان کھڑا کرے گا، یہ ہماری 65 آبادی کے ذہنوں میں ایک مسئلہ ہے۔
پاکستان
کی کل آبادی 240 ملین سے کچھ زیادہ ہے، جس میں سے 65 یعنی 15.
لاکھوں
سے زیادہ افراد جو نوجوان ہیں اور 30 سال سے کم عمر ہیں انہیں ہیک کیا جاتا ہے۔
آپ
پہلے ہی ہیک ہو چکے ہیں یا ہیک ہونے جا رہے ہیں کیونکہ آپ اگلے کچھ سالوں کے لئے
بہت کم عمر ، تین سے چار سال کی عمر کے لوگوں کو شامل کرسکتے ہیں۔
مائنڈ
ہیک یہ ہے کہ آج سے پہلے کسی بھی معاشرے میں پیدا ہونے والے بچوں کی بنیادی
ترجیحات کو ہر روز پسند کیا جاتا ہے، ناپسند کیا جاتا ہے اور کیا جاتا ہے۔
کچھ
لوگ اس معاشرے سے ہم آہنگ تھے، بچوں کے ذہنوں میں، وہاں پرورش پانے والے نوجوانوں
کے ذہنوں میں۔
ان
کا خیال تھا کہ ان کا بنیادی مواد زیادہ تر ان کے معاشرے سے ہے۔
اگر
وہ اس سارے مواد سے کسی سے متفق نہیں تھے، تو مقامی عقلی ہونا ناگزیر تھا کیونکہ
وہ
اپنے معاشرے کو سمجھتے تھے، وہ کیا پسند کرتے تھے، کیا ناپسند کرتے تھے، وہ کیا
تبدیلی چاہتے تھے، کیوں چاہتے تھے۔
یہ
بہت عجیب نہیں تھا، انہیں اس کا منطقی خیال تھا.
اور
وہ لوگ جو ان کے سامنے امتیازی سلوک کرتے ہیں۔
لیکن
اب ان کی پانچ سے چھ ارب پتی کمپنیاں بھی بیرونی ممالک کے ہاتھوں میں ہیں۔
ارب
پتی افراد اور ان کی کمپنیوں کے پاس دنیا بھر کے نوجوانوں کا ڈیٹا موجود ہے۔ ان کے
پاس تربیت کا اختیار ہے، ان کے پاس پرائیویسی ہے، ان کے اپنے راز ہیں، یعنی بچوں
کا انتخاب اور
ناپسندیدگی
کی باگ ڈور ان ارب پتی افراد کے ہاتھوں میں چلی گئی ہے جو معاشرے سے باہر ہیں۔
ان
کا تعلق بھی نہیں ہے، انہیں اس بات کی پرواہ نہیں ہے کہ یہ بچے کہاں بڑھ رہے ہیں،
جو وہ جانتے ہیں، آپ اسے اس طرح کر سکتے ہیں.
سمجھلیں
کہ انسان کسی بھی عمر میں جو بھی فیصلہ کرتا ہے وہ اسی علم پر مبنی ہوتا ہے۔
ان
کے نیورونز ان کے دماغ میں کیا تحفظ کرتے ہیں اور یہ نیورونز کس چیز کی حفاظت کر
رہے ہیں یہ اب دنیا بھر میں ایک معاملہ ہے۔
جہاں
وہ بچے اور نوجوان ہیں، وہ معاشرے کے ہاتھوں سے باہر ہیں۔
بارہ
رستا ان ارب پتی کمپنیوں کے الگورتھم کے کنٹرول میں چلے گئے ہیں۔
اور
اب ان کے پاس وہ کنٹرول ہے، وہ انتخابات کو ہیک کر سکتے ہیں اور مصنوعات کو مشہور
بنا سکتے ہیں اور جس کو چاہیں بدنام کر سکتے ہیں۔
وہ
ممالک کی قسمت کے ساتھ کھیل سکتے ہیں، وہ فین کلب بنا سکتے ہیں، وہ نفرت پر مبنی
کلب بنا سکتے ہیں۔
وہ
معاشروں کو ہیرو بنا کر ان کے ٹوٹے ہوئے ذہنوں کو خراب کر سکتے ہیں۔
آپ
ایک مشہور شخصیت بنا سکتے ہیں اور اعلی ذہن کا مزہ بنا سکتے ہیں، اور وہ ایسا کر
سکتے ہیں.
ہم
اپنے نوجوانوں کے ذہنوں کو بے رحم الگورتھم کے سامنے گروی رکھنے کی ہر ممکن کوشش
کر رہے ہیں۔ ہم اس کے متحمل نہیں ہوسکتے کیونکہ یہ الگورتھم صرف منافع کے لئے کام
کرتے ہیں۔
ڈیزائن
ہمارے معاشرے کی بہتری کے لئے ڈیزائن نہیں کیے جا رہے ہیں، لیکن معاملہ یہ ہے کہ
یہ کھیل اب ہے. اسمارٹ اور ڈی الگورتھم تیسری دنیا کے ممالک کے ہاتھ سے نکل گئے
نوجوانوں
کو چلاتے ہوئے، ان کے پاس ایک امیر ماں کا پہلا لفظ ہے، لہذا شاید
اپنے
جوانوں کے لیے کچھ انتظامات کریں، اپنے لیے ایپس بنائیں، کچھ چیک رکھیں، کچھ
پابندیاں لگائیں، کچھ قواعد بنائیں اور کچھ اصول بنائیں۔ وہ اپنے لوگوں کو بچانے
پر مجبور ہوسکتے ہیں، لیکن تیسری دنیا اور ہمارے جیسے ممالک کیا کریں گے؟ ان کے
پاس اتنی رقم نہیں ہے کہ وہ کسی بڑی ٹیکنالوجی کمپنی کے ساتھ مقابلہ کر سکیں۔
آپ
اپنے اسمارٹ الگورتھم بھی بنا سکتے ہیں اور اپنے نوجوانوں کے ذہن اور ڈیٹا کو کم
سے کم کرسکتے ہیں۔
وہ
ایسا کرنے کے قابل نہیں ہیں، وہ اس وقت یہ سب ہیک نہیں کر سکتے ہیں.
کھیل
امریکہ اور چین کے درمیان ہے اور ان میں سے زیادہ تر ان دونوں ممالک میں تمام نجی
ڈیٹا کی رازداری رکھتے ہیں.
ان
میں سے کسی ایک کے پاس یہ یا دونوں ہیں، لہٰذا تیسری دنیا کے رہنماؤں میں پاکستان
کے رہنما بھی ہونے چاہئیں۔
اپنے
مستقبل کو کسی دوسرے ملک کے غیر ملکی ارب پتی کے ہاتھوں میں جانے سے بچائیں
کچھ
لیں اور کم از کم 1617 سال کی عمر کے بچوں کے لئے آج کچھ منصوبے بنائیں.
ذہن
کو کسی ارب پتی کے لالچ کی آنکھ نہیں بننا چاہیے، ورنہ یہ برمی نسل ہوگی۔
اگر
کش فصا دت کی ریٹنگ اچھی ہے
فیس بک
کے پھیلاؤ اور
الگورتھم کو زیادہ لائیکس، زیادہ ویوز ملیں گے۔
اس
سے کمپنی کو تو فائدہ ہوگا لیکن ان الگورتھمز سے زمین پر موجود لوگوں کا خون بہایا
جائے گا۔
ڈیزائن
موجود ہے کیونکہ اسے مصروفیت کی ضرورت ہے، وہ اس میں تھوڑا سا باشعور ہے، وہ صرف
ہے
ذہین
اچھی طرح سے جانا نہیں جاتا ہے، اسی طرح، یہ الگورتھم مصروفیت کے لحاظ سے ڈیجیٹل
ہیں.
قبیلے
کے قبائل اور اس نئی دنیا اور اس نئی ڈیجیٹل کی تعمیر کرنے جا رہے ہیں
آدیواسی
نہیں جانتے، یہ صرف ارب پتی کمپنی ہے جو جانتی ہے کہ اس کے پاس کتنے دماغ ہیں۔
اسے
کس ڈیجیٹل قبیلے میں رکھا گیا ہے اور وہ ان ذہنوں کے ساتھ کیسے کھیلتا ہے؟
الگورتھم
نے انہیں بتایا ہے کہ بچے نہیں جانتے کہ وہ کس ملک کے شہری ہیں، اس لیے اب ایسا
لگتا ہے جیسے کور فیلوز جو بھی ہوں۔
وہ
بھی پاکستان میں تبدیلی چاہتے ہیں، انہیں یہ تبدیلی جلد اور اس طرح لانا ہے کہ
ہمیں
15 کروڑ 16 کروڑ نوجوانوں کو مائنڈ
ہیکنگ سے بچانا ہے۔
یہ
65 فیصد ہے کہ دنیا کے 130 میں سے
130 ماؤں کی
آبادی اس سے کم ہے۔
ہم
نے اس نوجوان کو اپنے ملک کا خالص سونا بنا دیا ہے۔
اگر
ہم مائنڈ ہاک کو بچا لیں تو ہم ایک ترقی پسند کمیونٹی بن سکتے ہیں ورنہ ہم
الگورتھم کے اس بے رحم نظام سے چھٹکارا حاصل کر سکیں گے۔
ہم
اس نظام کے جنون میں مبتلا ہو جائیں گے اور یہ نظام اپنے منافع کے لیے معاشرے کے
بل کو جس طرح چاہے تبدیل کر دے گا۔
آخری
چیز جو ہمارے خیال میں پاکستان کے لیے بہت اہم ہے وہ یہ ہے۔
کہ
ہمیں انقلاب کے رومانس سے پیدا ہونے والی اصلاحات کے بارے میں سوچنا شروع کرنا
چاہئے۔
یہ
ایک مشکل کام ہے، لیکن اتفاق رائے پیدا کیا جا سکتا ہے کیونکہ
اس
صورت حال میں پاکستان کو اصلاحات کے بارے میں سوچنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ
نہیں ہے۔
بری
ذہنیت کو جدید صنعتی رویہ دینے میں کامیاب
دوستو، ہم آپ کو ایک کہانی
سناتے ہیں جو بالکل میشی کی کہانی ہے جو دل سے کاظم بننا چاہتا تھا لیکن وہ
جال
میں اشرافیہ کا اتفاق رائے تھا، طاقتور لوگوں نے ایک بات کی اصلاح کی۔
انہوں
نے اس طرح کی اصلاحات پر اتفاق کیا اور پھر انہوں نے اصلاحات کا عمل شروع کیا اور
وہ کامیاب ہوئے اور یہی ملک ہے۔
جاپان،
جس کے پاس امریکہ اور چین کے مقابلے میں 4 فیصد سے بھی کم رقبہ ہے، ترقی کی دوڑ میں دوبارہ شامل ہو گیا ہے۔ ان دونوں ممالک میں اس کی آبادی
بھی بہت کم ہے لیکن
اس کی معیشت دنیا میں امریکہ اور چین کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔
جرمنی
کے بعد اسے چوتھے نمبر یعنی تیسرے، تیسرے یا چوتھے نمبر پر بھی رکھا گیا ہے۔
دنیا
کی نمبر ایک معیشت جاپان ہے، اگرچہ اس کا رقبہ بہت کم ہے اور آبادی بہت کم ہے۔
یہ
سب اپنے سے درجنوں گنا بڑے ممالک سے زیادہ امیر اور زیادہ طاقتور ہے۔ اس چھوٹے سے
ملک نے یہ کامیابی ایک خونی انقلاب کی وجہ سے نہیں بلکہ کچھ اصلاحات کی وجہ سے
حاصل کی ہے۔
یہ
اتفاق رائے طاقتور لوگوں کے اتفاق رائے کی وجہ سے حاصل کیا گیا تھا ، اگرچہ 100 ٪ کچھ
دو لوگوں نے حاصل کیا تھا۔
ممالک
ایک جیسے نہیں ہیں، لیکن ہمیں جاپان کی کہانی سے بہت کچھ سیکھنا ہے.
ایسا
ہوا کہ جاپان
19 ویں صدی تک ایک زرعی معیشت
تھا۔
لیکن
ایک ایسا ملک تھا جو پھلا پھولا، پورا مشاعرہ قادر رویا پر مبنی تھا اور جاگیرداری
پر مبنی تھا۔
اس
نظام کی طاقت اور اس کے مراکز میں سے ایک ساموری ایک خاندانی مرسی نظام تھا۔
جس
میں وراثت تھی، باہر سے کوئی آکر خود سمورائی نہیں بن سکتا تھا۔
سمورائی
خاندانوں نے یہ تعلیم ایک ایسے دور میں حاصل کی جب تعلیم عام نہیں تھی۔
لہٰذا
وہ پڑھنے لکھنے، مارشل آرٹس، جاپانی ثقافت اور تاریخ میں بہت کچھ سیکھتے تھے۔
وہ
بدھ مت اور قادر نجم کو الفاظ سے یاد کرنے کے کام میں الجھ جاتے تھے۔
اگر
ان کے پاس جنگ ہوتی تو وہ اپنے دشمنوں سے لڑتے۔
ایک
وقت میں دو تلواریں اٹھائے ہوئے تھے، دائیں ہاتھ میں وارپ اور بائیں ہاتھ میں
واکازی سمورائی ساموری ساموری دشمنوں سے لڑ رہے تھے۔
لیکن
ان کی باہمی لڑائیاں بھی تھیں، اپنی جاگیروں اور علاقے سے دشمنی بھی تھی۔
وہ
اپنی عزت اس قدر منتقل کرتے تھے کہ کسی بھی شکست، شرمندگی یا ناکامی کی صورت میں
سفید کپڑے پہن کر خودکشی کر لیتے تھے۔
اسے
ثقافتی خودکشی، سماج، خودکشی، قبائلی زراعت کہا جاتا تھا۔
معاشرے
کے مطابق، یہ بہت بہادر لوگ تھے، لیکن وہ بہادر لوگ تھے.
یہاں
تک کہ جب جاپان سو رہا تھا تب بھی جاپان کی حالت ایسی تھی کہ امریکہ، روس، فرانس،
نیدرلینڈز اور نیدرلینڈز۔
باتانیہ
کی فوج نے جاپان کی بندرگاہوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا تھا۔
اس
نے اپنی مرضی سے قانون میں تجارت کی، اس نے اپنی مرضی سے ٹیکس لگائے، اور جاپانی
شہنشاہ.
یا
یہ بہادر گیریٹ سست ساموری امریکی جہاز کی دوڑ کی وجہ سے کچھ نہیں کر سکا۔
طاقتور
کالے جہاز سمندر میں آ گئے اور سمورائی کی فوج ان کا مقابلہ نہ کر سکی۔
جاپان
کی فوج اتنی کمزور کیوں تھی، حالانکہ گیریژن اتنی کمزور تھی، کیونکہ جاپان تین
صدیوں سے اپنی فوج کھو چکا تھا؟
رویا
نے اپنے شنتو مذہب اور سمورائی ثقافت کے تحفظ کے لئے تنہائی کی پالیسی اپنائی۔
کوئی
بھی جاپان سے باہر نہیں جا سکتا تھا اور کوئی باہر سے جاپان کے اندر نہیں جا سکتا
تھا۔
جس
نے بھی ایسا کیا اسے موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا: سوسن ویسٹرن کرسچن
ملک
سے کسی کے جنوب میں مین لینڈ جاپان آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
جاپان
میں ایک مصنوعی جزیرہ تھا جسے مسان جزیرہ کہا جاتا تھا، جہاں صرف چینی، کوریائی
اور ڈچ پائے جاتے تھے۔
تاجروں
کو آنے اور تجارت کرنے کی اجازت تھی، لیکن جگہ کی نگرانی بھی کی گئی تھی۔
یہ
مشاہدہ کیا گیا تھا کہ خوردبینی لینس کے ساتھ آلات کا صرف مسند کیا گیا تھا۔ کیا
اسے منتقل کیا جا رہا ہے، کیا یہ ثقافت نہیں ہے، بلکہ اس تنہائی کی خود ساختہ ساکھ
ہے؟
پابندی
کا نتیجہ یہ ہوا کہ جاپان مغرب میں صنعتی عروج بہت زیادہ تھا۔
جب
یہ صنعت میں صدیوں پیچھے رہ گیا تو یہ مغرب کی جنگی مشینری میں تھا۔
وہ
ہتھیاروں میں بھی پیچھے رہ گئے جس کی وجہ سے یہ تمام طاقتور مائیں جاپان کا ساحل
تھیں۔
لیکن
وہ آئے اور ان کی املاک پر قبضہ کرنا شروع کر دیا، ان کی غیر ملکی طاقت چھین لی
اور اپنی طاقت کو تیز کرنا شروع کر دیا۔
جاپان
کو جہازوں کی طاقت، ہتھیاروں کی طاقت میں کوئی فرق نہیں تھا۔
جاپانیوں
کو تجارت کے لئے ان طاقتور کاموں کو قبول کرنے پر مجبور کیا گیا ورنہ
ایسے
میں جاپان کے کچھ بزرگوں نے محسوس کیا کہ اگر ہم مغربی ہیں۔
اگر
آپ بہرے لوگوں سے لڑیں گے تو آپ کو ضرور شکست ہوگی کیونکہ یہ صرف ہتھیاروں کا
معاملہ نہیں تھا۔
جاپانیوں
کے پاس وہ اتحاد بھی نہیں تھا جس کی انہیں مغربی فوج سے لڑنے کی ضرورت تھی اور وہ
مغربی فوجوں میں تھے۔
کیونکہ
جاپانی سمورائی، جیسا کہ ہم نے ذکر کیا، مختلف قبائل اور علاقوں میں مختلف ناموں
سے رہتے تھے۔
وہ
لڑنے کے لیے تیار تھا، لیکن اسے مرکزی کمان میں مغربی طاقتوں کی طرح لڑنے کا تجربہ
نہیں تھا۔
کسی
کا اپنا انداز، اپنا مصالحہ اور اپنا علاقہ تھا، اور آپس میں لڑائیاں ہوتی تھیں،
اس لیے جاپانی طاقت کے حلقے اور دانشور۔
سوچ
میں ایک بڑی تبدیلی نئے شہنشاہ میزی کے نتیجے میں آئی۔
مشترکہ
اصلاحات نے تین صدیوں میں جاپان کی تنہائی کا آغاز کر دیا
اس
پالیسی کو اکثر ختم کر دیا جاتا تھا، اٹھایا جاتا تھا اور بہارال سست میں پھینک
دیا جاتا تھا۔
لوگوں
نے ترقی سے یفتا موما کو بلانا شروع کر دیا اور اپنے لوگوں کو وہاں بھیجنا شروع کر
دیا۔
سزائیں
موت سے دی جاتی تھیں، اب وہ خود طاقت کے زور پر مجبور ہیں۔
زرعی
معیشت کے لئے.
جاپانی
آئین صنعتی میز کے اندر ایک مرکزی حکومت تشکیل دے کر تشکیل دیا گیا تھا.
ایک
شہنشاہ قائم کیا گیا جس میں شہنشاہ سب سے اوپر تھا، شہنشاہ سب سے اوپر تھا، لیکن
فیصلے کیے جاتے تھے.
یہی
نہیں بلکہ دو ایسے لوگ بھی تھے جن کے پاس جمہوریت کی مضبوط شکل بھی تھی۔
یہ
بالکل بھی مکمل طور پر جدید مغربی جمہوریت نہیں تھی ، لیکن اس کا آغاز اس وقت
جاپانی طرز عمل کے مطابق ہوا تھا۔
پنچایت
طرز کی فیصلہ سازی کو ختم کرکے مغربی طرز کی قانون سازی
جدید
دربار نظام بٹانیہ کی طرز پر لکھا اور قائم کیا گیا
فضلے
کو ختم کر دیا گیا تھا اور ناگزیر اثر بڑے مینور کی حفاظت کرنا تھا۔
ساڑیاں
بنانے اور ترتیب دینے کے نظام کو بھی ختم کرنا پڑا۔
جاپان
کے قومی سپاہیوں میں سے ایک نے ایک کمانڈ کے تحت بھرتیاں شروع کیں ، لیکن اس وقت
بھی یہ ٹیکنالوجی ماسٹر کے پاس دستیاب نہیں تھی۔ ایک اور اہم تبدیلی جو کی گئی وہ
جدید فوج کے ساتھ ساتھ جاپانی صنعتی اڈہ تھا۔
فوج
کے ساتھ ساتھ
جاپانی بحریہ بھی صدیوں بعد جرمن اور برطانوی طرز پر تشکیل دی گئی۔
ان
کے ماہرین کی مدد سے جنگی جہازوں کی پیداوار شروع کی گئی اور بحریہ کے لیے ہتھیار
بنانے کی صنعتیں بھی جاپان میں تھیں۔
آپ
نے فوکو جاوا یوکی کا نام ضرور سنا ہوگا جس کا آغاز تصویر میں ہوا تھا۔
ان
پر جاپانی کرنسی نوٹ بھی چھاپے گئے تاکہ انہیں امریکہ میں پڑھا جا سکے۔
انہیں
پہلی نجی مغربی طرز کی اعلی تعلیم کے لئے جاپان بھیجا گیا تھا۔
انہوں
نے جاپان کو جدید بنانے میں بہت بنیادی کردار ادا کیا ہے ، پھر پالمر کی کہانی
میں۔
آپ
نے دیکھا ہوگا کہ کس طرح جاپانی ایڈمرل یاماموتو نے امریکی بحریہ کو پیچھے چھوڑ
دیا، اسی طرح ہارورڈ یونیورسٹی نے بھی۔
اگرچہ
انہوں نے جاپان میں بحری مہارت حاصل کی تھی ، لیکن انہوں نے بنیادی طور پر سیکھا
تھا کہ ماجی اصلاحات نے جاپان کو تبدیل کردیا ہے۔
اور
یہ اس لئے بدل گیا کیونکہ اشرافیہ نے اس بات پر اتفاق کیا کہ جاپان کو ایسا کرنا
چاہئے۔
یہ
صنعت کے ایک بڑے حصے اور حکمران طبقے کا باہمی مفاد ہے۔
اتفاق
سے، ان اصلاحات کے خلاف ایک چھوٹی سی بغاوت ہوئی، جن میں سے ایک
آپ
نے بالی ووڈ کے جعلی اور مبالغہ آمیز جھوٹ کی کہانی بنائی ہے۔
آپ
نے انہیں فلم میں دیکھا ہوگا، فی الحال ان کی کہانی کو نظر انداز کریں اور بس یاد
رکھیں کہ وہ ایک ہاری ہوئی جنگ لڑ رہے تھے۔
وہ
اپنے بوکا اور کاظم رویا اور اکھری کی جدید دنیا کے لیے لڑ رہے تھے۔
گونزی
اصلاحات نے جاپان کو اتنا طاقتور بنا دیا کہ وہ دوسری جنگ عظیم میں تھا۔
یہ
اتنے چھوٹے رقبے والے ملک میں ایک بین الاقوامی صنعتی طاقت تھی جو چین سے ملتی
جلتی ہے۔
4 فیصد رقبہ بھی تعمیر نہیں کیا گیا تھا، انہوں نے چین کے شمالی حصے میں
میجریا پر قبضہ کر لیا۔
اس
نے کوریا، فل پین، تائیوان اور انڈونیشیا پر بھی قبضہ کر لیا۔
جاپان
اپنے مضبوط دماغ کی وجہ سے نہیں تھا اور نہ ہی خونی انقلاب کی وجہ سے تھا۔
بلکہ
ہمیں اپنے ملک کے مسئلے کی بنیادی وجہ کو سمجھنے اور اصلاحات کے ذریعے اسے حل کرنے
کی ضرورت ہے۔
یہ
اس چھوٹے سے ملک کا نتیجہ تھا، جو چین کے رقبے کا 4 فیصد بھی ہے۔
اس
نے چین کے شمالی علاقے تک رسائی حاصل نہیں کی، اس نے منچوریا پر قبضہ کر لیا، اس
کے علاوہ کوریا، فلپائن، تائیوان اور
انڈونیشیا
پر بھی قبضہ کر لیا گیا تھا جبکہ دوسری جنگ میں بھی انہوں نے برما پر قبضہ کر لیا
تھا اور ہندوستان میں برطانوی امپائر کو اس قدر دھمکیاں دی گئیں کہ یہاں کے لوگ
ایسا بھی نہ کر سکے۔ وہ سمجھنے لگے کہ اب ہندوستان پر انگریزوں کے بجائے جاپان کا
قبضہ ہو گا۔
جاپان
اپنے مضبوط دماغ کی وجہ سے ہلاک نہیں ہوا اور نہ ہی خونی انقلاب کی وجہ سے۔
ہمارے
ملک کے مسئلے کی اصل وجہ کو سمجھنا اور اصلاحات کے ذریعے مسئلے کو حل کرنا۔
نتیجہ
آیا اور یہ وہاں کی اشرافیہ کا باہمی اتفاق تھا۔
اگر
ہم تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا کا سامنا کرنا چاہتے ہیں تو پاکستان کے 250 ملین لوگوں کو دنیا سے لڑنا پڑے گا۔
اگر
لوگ کرما راشٹر بننا چاہتے ہیں تو انہیں ان مسائل کی جڑوں تک پہنچنا ہوگا اور
انہیں حل کرنا ہوگا۔
ہمیں
کچھ کاسمیٹکس کرنے ہیں جن کا ہم نے ابھی کھل کر اور تفصیل سے اظہار کیا ہے۔
تبدیلیاں
لانے سے معیشت کو تھوڑا سا چلایا جائے گا، لیکن کچھ وقت کے بعد ہم ایک بار پھر ایک
نئے بہرے میں کھڑے ہوں گے اور ہمیں ایسا کرنا ہوگا۔
اس
سے نکلنے کے لیے ہمیں ان مسائل کو دوبارہ حل کرنا ہوگا۔
معاشرے
کے طاقتور لوگ اصلاحات کے ذریعے بدلتے وقت کے ساتھ تبدیل نہیں ہوئے ہیں۔
پھر
انقلابات آتے ہیں، جس کے بعد صرف تباہی ہی انسان کے ہاتھ میں آتی ہے۔
یہ
نہیں آتا اور راستے میں تمام تاریخیں مار دی جاتی ہیں، اصلاح شدہ معاشرے کی مذہبی
پختگی۔
جاری
رکھیں...






